يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے ایمان والو ! نبی کی آواز سے اپنی آواز اونچی (٢) نہ کرو، اور ان کے سامنے بلند آواز سے اس طرح بات نہ کروجس طرح تم میں سے بعض بعض کے سامنے اپنی آواز بلند کرتا ہے، ورنہ تمہارے اعمال اکارت ہوجائیں گے، اور تم اس کا احساس بھی نہ کرسکو گے
1- اس میں رسول اللہ (ﷺ) کے لئے اس ادب وتعظیم اور احترام وتکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے، پہلا ادب یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آوازیں نبی (ﷺ) کی آواز سے بلند نہ ہو۔ دوسرا ادب، جب خود نبی (ﷺ) سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو، اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بےتکلفی سےایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو۔ بعض نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد، یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ (ﷺ) کہہ کر خطاب کرو اگر ادب واحترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بےادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمہارے عمل برباد ہو سکتے ہیں اس آیت کی شان نزول کے لئے دیکھئے صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الحجرات، تاہم حکم کے اعتبار سے یہ عام ہے