سورة الفتح - آیت 15

سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

عنقریب جہاد سے پیچھے رہ جانے والے کہیں گے (٩) جب تم لوگ اموال غنیمت لینے کے لئے چلو گے، کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ جانے دو، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں، آپ کہہ دیجیے کہ تم ہمارے سات نہیں جا سکوگے، اللہ نے پہلے ہی ایسا فرمادیا ہے، تو وہ کہیں گے، بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، بلکہ وہ بہت کم سمجھتے ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس میں غزوۂ خیبر کا ذکر ہے جس کی فتح کی نوید اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں دی تھی، نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہاں سے جتنا بھی مال غنیمت حاصل ہوگا وہ صرف حدیبیہ میں شریک ہونے والوں کا حصہ ہے۔ چنانچہ حدیبیہ سے واپسی کے بعد آپ (ﷺ) نے یہودیوں کی مسلسل عہد شکنی کیوجہ سے خیبر پر چڑھائی کا پروگرام بنایا تو مذکورہ متخلفین نے بھی محض مال غنیمت کے حصول کے لئے ساتھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا، جسے منظور نہیں کیا گیا۔ آیت میں مغانم سےمراد مغانم خیبر ہی ہیں۔ 2- اللہ کے کلام سےمراد، اللہ کا خبیر کی غنیمت کو اہل حدیبیہ کے لئے خاص کرنے کا وعدہ ہے۔ منافقین اس میں شریک ہو کر اللہ کے کلام یعنی اس کے وعدے کو بدلنا چاہتے تھے۔ 3- یہ نفی بمعنی نہی ہے یعنی تمہیں ہمارے ساتھ چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے۔ 4- یعنی یہ متخلفین کہیں گے کہ تم ہمیں حسد کی بنا پر ساتھ لے جانے سے گریز کر رہے ہو تاکہ مال غنیمت میں ہم تمہارے شریک نہ ہوں۔ 5- یعنی بات یہ نہیں ہے جو وہ سمجھ رہے ہیں، بلکہ یہ پابندی ان کے پیچھے رہنے کی پاداش میں ہے۔ لیکن اصل بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔