فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ
پس وہ لوگ صرف قیامت کا انتظار (٩) کر رہے ہیں، کہ وہ اچانک انہیں آلے، چنانچہ اس کی نشانیاں تو آہی گئیں، پس جب وہ آدھمکے گی تو وہ لوگ اس سے کہاں عبرت حاصل کرسکیں گے
1- یعنی نبی (ﷺ)کی بعثت بجائے خود قرب قیامت کی ایک علامت ہے، جیسا کہ آپ (ﷺ) نے بھی فرمایا [ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ ] (صحيح بخاری تفسير سورة النازعات)”میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہے“۔ آپ (ﷺ) نے اشارہ کرکے واضح فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں، اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان فاصلہ نہیں ہے یا یہ کہ جس طرح ایک انگلی دوسری انگلی سے ذرا سا آگے ہے اسی طرح قیامت میرے ذرا سا بعد ہے۔ 2- یعنی جب قیامت اچانک آجائے گی تو کافر کس طرح نصیحت حاصل کر سکیں گے؟ مطلب ہے کہ اس وقت اگر وہ توبہ کریں گے بھی تو وہ مقبول نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر توبہ کرنی ہے تو یہی وقت ہے۔ ورنہ وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ ان کی توبہ بھی غیر مفید ہوگی۔