سورة آل عمران - آیت 156

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! ان کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کفر (108) کیا، اور اپنے بھائیوں کے بارے میں جب وہ سفر یا جہاد کے لیے نکلے (اور موت آگئی) کہا کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہیں مرتے اور نہ قتل کیے جاتے، تاکہ اللہ اس خیال کو ان کے دلوں کی حسرت بنا دے، اور اللہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اور اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اہل ایمان کو اس فساد عقیدہ سے روکا جا رہا ہے جس کے حامل کفار اورمنافقین تھے کیونکہ یہ عقیدہ بزدلی کی بنیاد ہے اس کے برعکس جب یہ عقیدہ ہو کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے، نیز یہ کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے تو اس سے انسان کے اندر عزم وحوصلہ اور اللہ کی راہ میں لڑنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ 2- مذکورہ فساد عقیدہ دلی حسرت کا ہی سبب بنتاہے کہ اگر وہ سفر یا میدان جنگ میں جاتے بلکہ گھر میں ہی رہتے تو موت کی آغوش میں جانے سے بچ جاتے۔ درآں حالیکہ موت تو مضبوط قلعوں کے اندر بھی آجاتی ہے، ﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ﴾ (النساء:78) ”تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں پالے گی اگرچہ تم ہو مضبوط قلعوں میں“۔ اس لئے اس حسرت سے مسلمان ہی بچ سکتے ہیں جن کے عقیدے صحیح ہیں۔