سورة آل عمران - آیت 152

وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ نے تمہارے ساتھ اپنا وعدہ (104) سچ کر دکھایا، جب تم کافروں کو اللہ کے حکم سے (گاجر مولی کی طرح) کاٹ رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم نے کم ہمتی دکھلائی اور اپنے معاملہ میں خود آپس میں جھگڑنے لگے اور جب اللہ نے تمہیں تمہاری پسندیدہ چیز دکھلا دی تو اللہ کی نافرمانی کر بیٹھے، تم میں سے کوئی دنیا چاہتا تھا، اور تم میں سے کوئی آخرت چاہتا تھا، پھر اللہ نے تمہیں ان کافروں سے پھیر دیا، تاکہ تمہیں آزمائے، اور اللہ نے تمہیں معاف کردیا، اور اللہ کا مومنوں پر بڑا فضل و کرم تھا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس وعدے سے بعض مفسرین نے تین ہزار اور ہزار فرشتوں کا نزول مراد لیا ہے لیکن یہ رائے سرے سے صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ نزول صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا۔ باقی رہا وہ وعدہ جو اس آیت میں مذکورہے تو اس سے مراد فتح ونصرت کا وہ عام وعدہ ہے جو اہل اسلام کے لئے اور اس کے رسول کی طرف سے بہت پہلے سے کیا جا چکا تھا۔ حتیٰ کہ بعض آیتیں مکہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ اور اس کے مطابق ابتدائے جنگ میں مسلمان غالب وفاتح رہے جس کی طرف ﴿إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ﴾ سے اشارہ کیا گیا ہے۔ 2- اس تنازع اور عصیان سے مراد تیر اندازوں کا وہ اختلاف ہے جو فتح وغلبہ دیکھ کر ان کے اندر واقع ہوا اور جس کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کا موقع ملا۔ 3- اس سے مراد وہ فتح ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ 4- یعنی مال غنیمت، جس کے لئے انہوں نے وہ پہاڑی چھوڑ دی جس کے نہ چھوڑنے کی انہیں تاکید کی گئی تھی۔ 5- وہ لوگ ہیں جنہوں نے مورچہ چھوڑنے سے منع کیا اور نبی کریم (ﷺ) کے فرمان کے مطابق اسی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔ 6- یعنی غلبہ عطا کرنے کے بعد پھر تمہیں شکست دے کر ان کافروں سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔ 7- اس میں صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے اس شرف وفعل کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ نے ان پر فرمایا۔ یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کرکے آئندہ اس کا اعادہ نہ کریں، اللہ نے ان کے لئے معافی کا اعلان کر دیا تاکہ کوئی بد باطن ان پر زبان طعن دراز نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کریم میں ان کے لئے عفو عام کا اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لئے طعن وتشنیع کی گنجائش کہاں رہ گئی؟ صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک حج کے موقعے پر ایک شخص نے حضرت عثمان (رضي الله عنه) پر بعض اعتراضات کئے کہ وہ جنگ بدر میں، بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے، نیز یوم احد میں فرار ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عمر (رضي الله عنه) نے فرمایا کہ جنگ بدر میں تو ان کی اہلیہ (بنت رسول (ﷺ)) بیمار تھیں، بیعت رضوان کے موقع پر آپ رسول (ﷺ) کے سفیر بن کر مکہ گئے ہوئے تھے اور یوم احد کے فرار کو اللہ نے معاف فرما دیا ہے۔ (ملخصا۔ صحیح بخاری، غزوۂ احد)