وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں (٢٠) دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا، تو انہوں نے (فرعونیوں سے) کہا کہ میں رب العالمین کا پیغامبر ہوں
1- قریش مکہ نے کہا تھا کہ اگر اللہ کسی کو نبی بناکر بھیجتا ہی تو مکے اور طائف کے کسی ایسے شخص کو بھیجتا جو صاحب مال وجاہ ہوتا۔ جیسے فرعون نے بھی حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے مقابلے میں کہا تھا کہ میں موسیٰ سے بہتر ہوں (اور یہ مجھ سے کمتر ہے، یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا) جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ غالباً اسی مشابہت احوال کی وجہ سے یہاں حضرت موسیٰ (عليہ السلام) وفرعون کا قصہ دہرایا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں حضرت نبی کریم (عليہ السلام) کے لیے بھی تسلی کا پہلو ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو بھی بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا، انہوں نے صبر اور عزم سے کام لیا، اسی طرح آپ بھی کفار مکہ کی ایذاؤں اور ناروا رویوں سے دل برداشتہ نہ ہوں، صبر اور حوصلے سے کام لیں۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) ہی کی طرح بالآخر فتح وکامرانی آپ ہی کی ہے اور یہ اہل مکہ فرعون ہی کی طرح ناکام ونامراد ہوں گے۔