فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
پھر شیطان نے ان دونوں کو لغزش (٨١) میں مبتلا کردیا، اور انہیں اس نعمت و راحت سے نکلوا دیا جس میں وہ تھے، اور ہم نے کہا کہ پستی میں اتر (٨٢) جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن (٨٣) ہوگے، اور تمہارے واسطے زمین ٹھکانا ہے، اور ایک (مقرر) وقت (٨٤) تک فائدہ اٹھانا ہے
1-شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا، یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے، اس کی بابت کوئی صراحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر (کہ میں آدم سے بہتر ہوں) سجدے سے انکار کیا، اسی طرح اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿وَلا تَقْرَبَا﴾ کی تاویل کرکے حضرت آدم (عليہ السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا، جس کی تفصیل سورۂ اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کی دورازکار تاویل کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا 2- مراد آدم (عليہ السلام) اور شیطان ہیں، یا یہ مطلب ہے کہ بنی آدم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔