أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
کیا آپ کے رب کی رحمت (١٤) کو لوگوں میں یہ کفار تقسیم کریں گے، ہم نے ہی دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ان کے درمیان تقسیم کی ہے، اور ان میں سے بعض کو بعض پر کئی درجہ رفعت و بلندی دی ہے، تاکہ ان میں سے بعض بعض کو اپنی ماتحتی میں رکھے، اور آپ کے رب کی رحمت و مہربانی اس مال سے زیادہ بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں
1- رحمت، نعمت کے معنی میں ہے، اور یہاں سب سے بڑی نعمت، نبوت، مراد ہے۔ استفہام انکار کے لیے ہے۔ یعنی یہ کام ان کا نہیں ہے کہ رب کی نعمتیں بالخصوص نعمت نبوت یہ اپنی مرضی سے تقسیم کریں، بلکہ یہ صرف رب کا کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کا علم اور ہر شخص کے حالات سے پوری واقفیت رکھتا ہے، وہی بہتر سمجھتا ہے کہ انسانوں میں سے نبوت کا تاج کس کے سر پر رکھنا ہے اور اپنی وحی ورسالت سے کس کو نوازنا ہے۔ 2- یعنی مال ودولت، جاہ ومنصب اور عقل وفہم میں ہم نے یہ فرق وتفاوت اس لیے رکھا ہے تاکہ زیادہ مال والا، کم مال والے سے، اونچے منصب والا چھوٹے منصب داروں سے، اور عقل وفہم میں حظ وافر رکھنے والا، اپنے سے کم تر عقل وشعور رکھنے والے سے کام لے سکے۔ اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ سے کائنات کا نظام بحسن وخوبی چل رہا ہے۔ ورنہ اگر سب مال میں، منصب میں، علم وفہم میں، عقل وشعور میں اور دیگر اسباب دنیا میں برابر ہوتے تو کوئی کسی کا کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا، اسی طرح کم تر اور حقیر سمجھے جانے والے کام بھی کوئی نہ کرتا۔ یہ احتیاج انسانی ہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرق وتفاوت کے اندر رکھ دی ہے جس کی وجہ سے ہر انسان دوسرے انسان بلکہ انسانوں کا محتاج ہے، تمام حاجات وضروریات انسانی، کوئی ایک شخص، چاہے وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو، دیگر انسانوں کی مدد حاصل کیے بغیر خود فراہم کر ہی نہیں سکتا۔ 3- اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔