وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مان لیا، اور نماز قائم کی، اور ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں، اور ہم نے انہیں جو روزی دی ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں
1- یعنی اس کے حکم کی اطاعت، اس کے رسول کا اتباع اور اس کے زواجر سے اجتناب کرتے ہیں۔ 2- نماز کی پابندی اور اقامت کا بطور خاص ذکر کیا کہ عبادات میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ 3- شُورَى ٰ، کا لفظ ذِكْرَىٰ اور بُشْرَىٰ کی طرح باب مفاعلہ سے اسم مصدر ہے۔ یعنی اہل ایمان ہر اہم کام باہمی مشاورت سے کرتے ہیں، اپنی ہی رائے کو حرف آخر نہیں سمجھتے خود نبی (ﷺ) کو بھی اللہ نے حکم دیا کہ مسلمانوں سے مشورہ کرو (آل عمران: 159) چنانچہ آپ جنگی معاملات اور دیگر اہم کاموں میں مشاورت کا اہتمام فرماتے تھے۔ جس سے مسلمانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی اور معاملے کے مختلف گوشے واضح ہوجاتے۔ حضرت عمر (رضی الله عنہ) جب نیزے کے وار سے زخمی ہوگئے اور زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو امر خلافت میں مشاورت کے لیے چھ آدمی نامزد فرما دیے۔ عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف (رضی الله عنہم) ۔ انہوں نے باہم مشورہ کیا اور دیگر لوگوں سے بھی مشاورت کی اور اس کے بعد حضرت عثمان (رضی الله عنہ) کو خلافت کے لیے مقرر فرمادیا۔ بعض لوگ مشاورت کے اس حکم اور تاکید سے ملوکیت کی تردید اور جمہوریت کا اثبات کرتے ہیں۔ حالانکہ مشاورت کا اہتمام ملوکیت میں بھی ہوتا ہے۔ بادشاہ کی بھی مجلس مشاورت ہوتی ہے، جس میں ہر اہم معاملے پر سوچ بچار ہوتا ہے اس لیے اس آیت سے ملوکیت کی نفی قطعاً نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں جمہوریت کو مشاورت کے ہم معنی سمجھنا یکسر غلط ہے۔ مشاورت ہر کہ و مہ سے نہیں ہوسکتی، نہ اس کی ضرورت ہی ہے۔ مشاورت کا مطلب ان لوگوں سے مشورہ کرنا ہے جو اس معاملے کی نزاکتوں اور ضرورتوں کو سمجھتے ہیں جس میں مشورہ درکار ہوتا ہے۔ جیسے بلڈنگ، پل وغیرہ بنانا ہو تو، کسی تانگہ بان، درزی یا رکشہ ڈرائیور سے نہیں، کسی انجینئر سے مشورہ کیا جائے گا، کسی مرض کے بارے میں مشورے کی ضرورت ہوگی تو طب و حکمت کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ جب کہ جمہوریت میں اس کے برعکس ہر بالغ شخص کو مشورے کا اہل سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ کورا ان پڑھ، بےشعور اور امور سلطنت کی نزاکتوں سے یکسر بے خبر ہو۔ بنابریں مشاورت کے لفظ سے جمہوریت کا اثبات، تحکم اور دھاندلی کے سوا کچھ نہیں، اور جس طرح سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگانے سے سوشلزم مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتا، اسی طرح جمہوریت میں اسلام کی پیوند کاری سے مغربی جمہوریت پر خلافت کی قباراست نہیں آسکتی۔ مغرب کا یہ پودا اسلام کی سرزمین پر نہیں پنپ سکتا۔