ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
یہی وہ نعمت ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، آپ کہہ دیجیے کہ میں اللہ کی پیغام رسانی پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ہوں، صرف قرابت کی محبت چاہتا ہوں، اور جو شخص کوئی نیکی کرتا ہے، ہم اس میں اپنی طرف سے ایک نیکی کا اضافہ کردیتے ہیں، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، نیک کاموں کا بڑا قدر دان ہے
1- قبائل قریش اور نبی (ﷺ) کے درمیان رشتے داری کا تعلق تھا، آیت کا مطلب بالکل واضح ہے کہ میں وعظ ونصیحت اور تبلیغ ودعوت کی کوئی اجرت تم سے نہیں مانگتا، البتہ ایک چیز کا سوال ضرور ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان جو رشتے داری ہے، اس کا لحاظ کرو، تم میری دعوت کو نہیں مانتے تو نہ مانو، تمہاری مرضی۔ لیکن مجھے نقصان پہنچانے سے تو باز رہو، تم میرے دست وبازو نہیں بن سکتے تو رشتہ داری وقرابت کے ناطے مجھے ایذا تو نہ پہنچاؤ اور میرے راستے کا روڑہ تو نہ بنو کہ میں فریضۂ رسالت ادا کرسکوں۔ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے اس کے معنی کیے ہیں کہ میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت (رشتہ داری) ہے اس کو قائم رکھو۔ (صحيح البخاری، تفسير سور الشورىٰ) نبی کریم (ﷺ) کی آل، یقیناً حسب ونسب کے اعتبار سے دنیا کی اشرف ترین آل ہے اس سے محبت، اس کی تعظیم وتوقیر جزو ایمان ہے۔ اس لیے کہ نبی (ﷺ) نے بھی احادیث میں ان کی تکریم اور حفاظت کی تاکید فرمائی ہے لیکن اس آیت کا کوئی تعلق اس موضوع سے نہیں ہے، جیسا کہ شیعہ حضرات کھینچا تانی کرکے اس آیت کو آل محمد (ﷺ) کی محبت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور پھر آل کو بھی انہوں نے محدود کردیا ہے، حضرت علی (رضی اللہ عنہ) و حضرت فاطمہ (رضی الله عنہا) اور حسنین (رضی اللہ عنہما) تک۔ نیز محبت کا مفہوم بھی ان کے نزدیک یہ ہے کہ انہیں معصوم اور الٰہی اختیارات سے متصف مانا جائے۔ علاوہ ازیں کفار مکہ سے اپنے گھرانے کی محبت کا سوال بطور اجرت تبلیغ نہایت عجیب بات ہے جو نبی (ﷺ) کی شان ارفع سے بہت ہی فروتر ہے آپ (ﷺ) کی تبلیغ کو قبول نہ کرنے کے باوجود آپ (ﷺ) کی طلب تو صرف قرابت اور صلۂ رحمی کی بنیاد پر محبت برقرار رکھنے کی تھی پھر یہ آیت اور سورت مکی ہے جب کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور حضرت فاطمہ (رضی الله عنہا) کے درمیان ابھی عقد زواج بھی قائم نہیں ہوا تھا۔ یعنی ابھی وہ گھرانہ معرض وجود میں ہی نہیں آیا تھا جس کی خود ساختہ محبت کا اثبات اس آیت سے کیا جاتا ہے۔ 2- یعنی اجر وثواب میں اضافہ کریں گے۔ یا نیکی کے بعد اس کا بدلہ مزید نیکی کی توفیق کی صورت میں دیں گے جس طرح بدی کا بدلہ مزید بدیوں کا ارتکاب ہے۔ 3- اس لیے وہ پردہ پوشی فرماتا اور معاف کردیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اجر دیتا ہے۔