مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ
جو شخص آخرت کی کھیتی (١٥) (یعنی اجر و ثواب) کا خواہاں ہوتا ہے، ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کرتے ہیں، اور جو شخص دنیا کی کھیتی ( یعنی فائدہ) چاہتا ہے تو ہم اسے اس کا کچھ حصہ دے دیتے ہیں، اور آخرت میں اجر و ثواب کا اسے کوئی حصہ نہیں ملے گا
1- حَرَثٌ کے معنی تخم ریزی کے ہیں۔ یہاں یہ بہ طریق استعارہ اعمال کے ثمرات وفوائد پر بولا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص دنیا میں اپنے اعمال ومحنت کے ذریعے سے آخرت کے اجر وثواب کا طالب ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی کھیتی میں اضافہ فرمائے گا کہ ایک ایک نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک بھی عطا فرمائے گا۔ 2- یعنی طالب دنیا کو دنیا تو ملتی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی وہ چاہتا ہے بلکہ اتنی ہی ملتی ہے جتنی اللہ کی مشیت اور تقدیر کے مطابق ہوتی ہے۔ 3- یہ وہی مضمون ہے جو سورۂ بنی اسرائیل: 18 میں بھی بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اتنی ضرور دیتا ہے جتنی اس نے لکھ دی ہے، کیونکہ وہ سب کی روزی کا ذمہ لئے ہوئے ہے، طالب دنیا کو بھی اور طالب آخرت کو بھی۔ تاہم جو طالب آخرت ہوگا یعنی آخرت کے لیے کسب و محنت کرے گا تو قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً اجر وثواب عطا فرمائے گا، جب کہ طالب دنیا کے لئے آخرت میں سوائے جہنم کے عذاب کے کچھ نہیں ہوگا ۔اب یہ انسان کو خود سوچ لینا چاہیئے کہ اس کا فائدہ طالب دنیا بننے میں ہے یا طالب آخرت بننے میں۔