سورة الشورى - آیت 18

يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ ۗ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو لوگ اس کی آمد پر یقین نہیں رکھتے وہ اس کی جلدی مچاتے ہیں، اور جو اہل ایمان ہیں اس سے خائف رہتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ اس کا آنا حق ہے، آگاہ رہئے کہ جو لوگ قیامت میں شک کرتے ہیں وہ بڑی دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی استہزا کے طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کو آنا ہی کہاں ہے؟ اس لیے کہتے ہیں کہ قیامت جلدی آئے۔ 2- اس لیے کہ ایک تو ان کو اس کے وقوع کا پورا یقین ہے۔ دوسرے ان کو خوف ہے کہ اس روز بے لاگ حساب ہوگا، کہیں وہ بھی مواخذہ الٰہی کی زد میں نہ آجائیں۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ﴾ (المؤمنون: 60)۔ 3- يُمَارُونَ، مُمَارَاةٌ سے ہے جس کے معنی لڑنا جھگڑنا ہیں۔ یا مریہ سے ہے، بمعنی ریب وشک۔ 4- اس لیے کہ وہ ان دلائل پر غوروفکر ہی نہیں کرتے جو ایمان لانے کےموجب بن سکتے ہیں حالانکہ یہ دلائل روز وشب ان کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ان کی نظروں سے گزرتے ہیں اور ان کی عقل وفہم میں آسکتے ہیں۔ اس لیے وہ حق سے بہت دور جا پڑے ہیں۔