وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
اور ان لوگوں نے ان کے پاس صحیح دین کا علم آجانے کے بعد، محض آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اختلاف (١٠) کیا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے، ان کے بارے میں وقت مقرر تک تاخیر کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا، تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ہوتا، اور جو لوگ گذشتہ کافروں کے بعد اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) کے وارث بنائے گئے (یعنی یہود و نصاریٰ یا کفار قریش) وہ لوگ اس کتاب کے بارے میں بڑے گہرے شک میں پڑے ہیں
1- یعنی انہوں نے اختلاف اور تفرق کا راستہ علم یعنی ہدایت آجانے اور اتمام حجت کے بعد اختیار کیا، جب کہ اختلاف کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ لیکن محض بغض وعناد، ضد اور حسد کی وجہ سے ایسا کیا۔ اس سے بعض نے یہود اور بعض نے قریش مکہ مراد لیے ہیں۔ 2- یعنی اگر ان کی بابت عقوبت میں تاخیر کا فیصلہ پہلے سے نہ ہوتا تو فوراً عذاب بھیج کر ان کو ہلاک کردیا جاتا۔ 3- اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں جو اپنے سے ماقبل کے یہود و نصاریٰ کے بعد کتاب یعنی تورات وانجیل کے وارث بنائے گئے۔ یا مراد عرب ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنا قرآن نازل فرمایا اور انہیں قرآن کا وارث بنایا۔ پہلے مفہوم کے اعتبار سے ”الکتاب“ سے تورات وانجیل اور دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اس سے مراد قرآن کریم ہے۔