وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ
اور اگر کسی تکلیف کے بعد جو اسے پہنچتی ہے، ہم اپنی طرف سے اسے کسی نعمت (٣٣) سے نوازتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میں تو اس کا مستحق تھا ہی، اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آئے گی، اور اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹ کر گیا تو یقیناً مجھے اس کے پاس سب سے اچھا مقام ملے گا، پس اس وقت ہم کفر کرنے والوں کو یقیناً ان کے برے اعمال کی خبر دیں گے، اور ہم یقیناً انہیں نہایت سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے
1- یعنی اللہ کے ہاں میں محبوب ہوں، وہ مجھ سے خوش ہے، اسی لیے مجھے وہ اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ حالانکہ دنیا کی کمی بیشی اس کی محبت یا ناراضی کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ صرف آزمائش کے لیے اللہ ایسا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ نعمتوں میں اس کا شکر کون کررہا ہے اور تکلیفوں میں صابر کون ہے؟ 2- یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لیے ایسی ہی ہوگی۔