سورة فصلت - آیت 44

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی قرآن (٢٩) بنا دیتے تو وہ کہتے کہ اس کی آیتوں کی وضاحت کیوں نہیں کردی گئی ہے، کیسی بات ہے کہ قرآن تو عجمی ہے اور رسول عربی ہے، آپ کہہ دیجیے کہ یہ قرآن باعث ہدایت و شفا ہے ان لوگوں کے لئے جو اہل ایمان ہیں، اور جو اہل ایمان نہیں ہیں، ان کے کانوں کے لئے یہ بہرا پن، اور ان کی آنکھوں کا اندھا پن ہے، ان لوگوں کو کسی بہت ہی دور کی جگہ سے پکارا جا رہا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی عربی کے بجائے کسی اور زبان میں قرآن نازل کرتے۔ 2- یعنی ہماری زبان میں اسے بیان کیوں نہیں کیاگیا،جسےہم سمجھ سکتے، کیونکہ ہم توعرب ہیں، عجمی زبان نہیں سمجھتے۔ 3- یہ بھی کافروں ہی کا قول ہےکہ وہ تعجب کرتے ہیں کہ رسول تو عربی ہے اور قرآن اس پر عجمی زبان میں نازل ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآن کو عربی زبان میں نازل فرما کر اس کے اولین مخاطب عربوں کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا۔ ہے اگر یہ غیر عربی زبان میں ہوتا تو وہ عذر کر سکتے تھے۔ 4- یعنی جس طرح دور کا شخص، دوری کی وجہ سے پکارنے والے کی آواز سننے سے قاصر رہتا ہے، اسی طرح ان لوگوں کی عقل وفہم میں قرآن نہیں آتا۔