قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے، کیا تم اس اللہ کا انکار (٧) کرتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا ہے، اور اس کے لئے شرکاء بناتے ہو، وہی سارے جہان کا پالنہار ہے
1- قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ فرمایا، زمین کو دو دن میں بنایا۔ اس سے مراد ہیں۔ يَوْمُ الأَحَدِ (اتوار) اور يَوْمُ الاثْنَيْنِ (پیر) سورۂ نازعات میں کہا گیا ہے ﴿وَالأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا﴾ جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کا ذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ تخلیق اور چیز ہے دحی جو اصل میں دحو ہے (بچھانا یا پھیلانا) اور چیز۔ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی، جیسا کہ یہاں بھی بیان کیا گیا ہے اور دَحْوٌ کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے، اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔ ﴿أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا﴾ اس میں پہاڑ، ٹیلے اور جمادات رکھے گئے۔ یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دنوں میں کیا گیا۔ یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ حم السجدۃ)۔