سورة غافر - آیت 67

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اسی نے تمہیں مٹی (٣٨) سے پیدا کیا ہے، پھر نطفہ سے، پھر لو تھڑے سے، پھر وہ تمہیں (رحم مادر سے) بچہ کی شکل میں نکالتا ہے، پھر (تمہارے لئے زندگی کے اسباب مہیا کرتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر (تمہیں زندہ رکھتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ، اور تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی مرجاتے ہیں، اور تاکہ تم سب اپنے اپنے مقرر وقت کو پہنچ جاؤ، اور شاید کہ تم لوگ ان باتوں کو سمجھو

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی تمہارے باپ آدم (عليہ السلام) کو مٹی سے بنایا جو ان کی تمام اولاد کے مٹی سے پیدا ہونے کو مستلزم ہے۔ پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقا وتحفظ کے لیے انسانی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کردیا۔ اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے۔ جو صلب پدر سے رحم مادر میں جا کر قرار پکڑتا ہے۔ سوائے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کے، کہ ان کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی۔ جیساکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے اور جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ 2- یعنی ان تمام کیفیتوں اور اطوار سے گزارنے والا وہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ 3- یعنی رحم مادر میں مختلف ادوار سے گزر کر باہر آنے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں، بعض بچپن میں، بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے سے قبل کہولت میں فوت ہو جاتے ہیں۔ 4- یعنی اللہ تعالیٰ یہ اس لیے کرتا ہے تاکہ جس کی جتنی عمر اللہ نے لکھ دی ہے، وہ اس کو پہنچ جائے اور اتنی زندگی دنیا میں گزار لے۔