وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ
اور کافروں کو جھنڈ در جھنڈ جہنم کی طرف ہانکا (٤٣) جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ اس کے قریب پہنچیں گے، اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے، اور ان سے جہنم کے محافظ فرشتے کہیں گے، کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغامبر نہیں آئے تھے جنہوں نے تمہیں تمہارے رب کی آیتیں پڑھ کر سنائی تھی، اور اس دن کی ملاقات سے تمہیں ڈرایا تھا۔ تو وہ کہیں گے، ہاں ! مگر کافروں کے بارے میں عذاب کا فیصلہ ثابت ہوگیا
1- زُمَرٌ زَمْرٌ سے مشتق ہے بمعنی آواز ، ہر گروہ یا جماعت میں شور اور آوازیں ضرور ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ جماعت اور گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، مطلب ہے کہ کافروں کو جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا، ایک گروہ کےپیچھے ایک گروہ۔ علاوہ ازیں انہیں مار دھکیل کر جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہنکایا جائے گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا﴾ (الطور: 13) یعنی انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائےگا۔ 2- یعنی ان کے پہنچتے ہی فوراً جہنم کے ساتوں دروازے کھول دیے جائیں گے تاکہ سزا میں تاخیر نہ ہو۔ 3- یعنی جس طرح دنیا میں بحث وتکرار اور جدل ومناظرہ کرتے تھے، وہاں سب کچھ آنکھوں کے سامنے آجانے کے بعد، بحث وجدال کی گنجائش ہی باقی نہ رہے گی، اس لیے اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں ہوگا۔ 4- یعنی ہم نے پیغمبروں کی تکذیب اورمخالفت کی، اس شقاوت کی وجہ سے جس کے ہم مستحق تھے، جب کہ ہم نے حق سے گریز کر کے باطل کو اختیار کیا، اس مضمون کو سورۃ الملک: 8-10 میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔