فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
پس جب آدمی کو کوئی تکلیف (٣٢) پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارنے لگتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتے ہیں، تو وہ کہنے لگتا ہے کہ یہ تو مجھے میری دانشمندی کی وجہ سے ملی ہے۔ بلکہ یہ تو ایک آزمائش ہے، لیکن اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے
1- یہ انسان کا بہ اعتبار جنس، ذکر ہے۔ یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بیماری، فقر وفاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تواس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا اور اس کےسامنے گڑگڑاتا ہے۔ 2- یعنی نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے۔ یا جو علم وہنر میرے پاس ہے، اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیونکہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔ 3- یعنی بات وہ نہیں ہے جو توسمجھ رہا یا بیان کر رہا ہے، بلکہ یہ نعمتیں تیرے لیے امتحان اور آزمائش ہیں کہ تو شکر کرتا ہے یا کفر؟ 4- اس بات سے کہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اور امتحان ہے۔