سورة البقرة - آیت 33

قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

(اللہ نے) کہا اے آدم، تو ان فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا، جب آدم نے فرشتوں کو ان کے نام بتا دئیے، تو اللہ نے کہا، کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی (٧٣) ہوئی باتوں کو جانتا ہوں اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص واشیا) کے نام اور ان کے خواص وفوائد کا علم ہے، جو اللہ تعالیٰ نے القا والہام کے ذریعے حضرت آدم (عليہ السلام) کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم (عليہ السلام) ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فوراً سب کچھ بیان کردیا، جو فرشتے بیان نہ کرسکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کردی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت وفضیلت بیان فرما دی، جب یہ حکمت واہمیت علم فرشتوں پر واضح ہوئی، تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کرلیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے، اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔