سورة ص - آیت 86

قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے، لوگو ! میں تم سے دعوت توحید کا کوئی بدلہ (٣١) نہیں مانگتا ہوں، اور میں دعوت نبوت میں تصنع سے کام نہیں لے رہا ہوں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی اس دعوت وتبلیغ سے میرا مقصد صرف امتثال امر الٰہی ہے، دنیا کمانا نہیں۔ 2- یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کر دوں جو اس نے نہ کہی ہو یا میں تمہیں ایسی بات کی طرف دعوت دوں جس کا حکم اللہ نے مجھے نہ دیا ہو۔ بلکہ کوئی کمی بیشی کیے بغیر اللہ کے احکام تم تک پہنچا رہا ہوں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ! فرماتے تھے، جس کو کسی بات کا علم نہ ہو، اس کی بابت اسے کہہ دینا چاہئیے، اللہ اعلم یہ کہنا بھی علم ہی ہے، اس لئے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو کہا، فرما دیجئے ﴿وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ﴾ (ابن کثیر) علاوہ ازیں اس سے عام معاملات زندگی میں بھی تکلف وتصنع سے اجتناب کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ جیسے نبی (ﷺ) نے فرمایا [ نُهِينَا عَنِ التَّكَلُّف ] (صحيح بخاری، نمبر 7293) ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت سلمان (رضی الله عنہ) کہتے ہیں [ نَهَانَا رَسُولُ اللهِ (ﷺ) أَنَّ نَتَكَلَّفَ لِلضَّيْف ] (صحيح الجامع الصغير 9871) ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے مہمان کے لئے تکلف کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ لباس، خوراک، رہائش اور دیگر معاملات میں تکلفات، جو آج کل معیار زندگی بلند کرنے کے عنوان سے، اصحاب حیثیت کا شعار اور وطیرہ بن چکا ہے، اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام میں سادگی اور بے تکلفی اختیار کرنے کی تلقین وترغیب ہے۔