سورة ص - آیت 24

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

داؤد نے کہا، اس نے تمہاری دنبی مانگ کر، تاکہ اپنی دنبیوں کے ساتھ ملالے، تم پر زیادتی کی ہے، اور بہت سے شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، اور ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں، اور داؤد سمجھ گئے کہ ہم نے ان کی آزمائش کی ہے، اسی لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے لگے، اور سجدے میں گر گئے اور (ہماری طرف پوری طرح) متوجہ ہوگئے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے وہ پابند ہوتے ہیں۔ اس لئےکسی پر زیادتی کرنا اور دوسرے کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ 2- ﴿وَخَرَّ رَاكِعًا﴾ کا مطلب یہاں سجدے میں گر پڑنا ہے۔