إِذْ دَخَلُوا عَلَىٰ دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ فَاحْكُم بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَىٰ سَوَاءِ الصِّرَاطِ
وہ لوگ جب اچانک داؤد کے پاس پہنچ گئے، تو انہیں اپنے ساتھ دیکھ کر گھبرا گئے، ان لوگوں نے کہا، آپ ڈرئیے نہیں، ہم دو دعویدار ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، پس ہمارے درمیان حق و انصاف کے مطابق فیصلہ کردیجیے اور بے انصافی نہ کیجیے، اور سیدھی راہ کی طرف ہماری رہنمائی کیجیے
1- ڈرنے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک تو وہ دروازے کے بجائےعقب سے دیوار چڑھ کر اندر آئے۔ دوسرے، انہوں نے اتنا بڑا اقدام کرتے ہوئے بادشاہ وقت سے کوئی خوف محسوس نہیں کیا۔ ظاہری اسباب کے مطابق خوف والی چیز سے خوف کھانا، انسان کا ایک طبعی تقاضا ہے۔ یہ منصب وکمال نبوت کے خلاف ہے نہ توحید کے منافی۔ توحید کے منافی غیر اللہ کا وہ خوف ہے جو ماورائے اسباب ہو۔ 2- آنے والوں نے تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے درمیان ایک جھگڑا ہے، ہم آپ سے فیصلہ کرانے آئے ہیں، آپ حق کے ساتھ فیصلہ بھی فرمائیں اور سیدھے راستے کی طرف ہماری رہنمائی بھی۔