سورة يس - آیت 69

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے اپنے نبی کو شعر (٣٤) نہیں سکھایا ہے، اور نہ شاعری ان کے لئے مناسب ہے، یہ (کتاب) صرف نصیحت ہے، اور روشن قرآن ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مشرکین مکہ نبی (ﷺ) کی تکذیب کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے، ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں اور یہ قرآن پاک آپ کی شاعرانہ تک بندی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی۔ کہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت اور موعظت ہے۔ شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط وتفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا اس کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، نہ اشعار کی اس پر وحی کی، بلکہ اس کے مزاج وطبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اس کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (ﷺ) کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے اور اس کا وزن ٹوٹ جاتا۔ جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ احتیاط اس لئے کی گئی کہ منکرین پر اتمام حجت اور ان کے شبہات کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن اس کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امیت بھی قطع شبہات کے لئے تھی تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو اس نےفلاں سے سیکھ پڑھ کر اس کو مرتب کر لیا ہے۔ البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا، جو دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اوزان وبحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ایسا آپ کے قصد وارادہ کے بغیر ہوا اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح حنین والے دن آپ کی زبان پر بے اختیار یہ رجز جاری ہوگیا: أَنَا النَّبِيَّ لا كَذِب أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب ایک اور موقع پر آپ (ﷺ) کی انگلی زخمی ہوگئی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: هَلْ أَنْتِ إِلا إِصْبَعٌ دَمِيتِ وَفِي سَبِيلِ اللهِ مَا لَقِيتِ (صحيح بخاری ومسلم ، كتاب الجهاد)