سورة يس - آیت 38

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے، یہ نظام اس اللہ کا بنایا ہوا ہے جو بڑا زبردست، سب کچھ جاننے والا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی اپنے اس مدار (فلک) پر چلتا رہتاہے، جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کر دیا ہے، اسی سے اپنی سیر کا آغاز کرتا ہے اور وہیں پر ختم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے ذرا ادھر ادھر نہیں ہوتا، کہ کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا جائے۔ دوسرے معنی ہیں (اپنے ٹھہرنے کی جگہ تک) اور اس کا یہ مقام قرار عرش کے نیچے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے جو صفحہ 916 (سورۃ الحج، آیت 18 کا حاشیہ) پر گزر چکی ہے کہ سورج روزانہ غروب کے بعد عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتا ہے اور پھر وہاں سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ یسں) دونوں مفہوم کے اعتبار سے لِمُسْتقَرٍّ میں لام، علت کے لئے ہے۔ أي: لأجل مُسْتقَرٍّ لَّهَا بعض کہتے ہیں کہ لام، الٰی کے معنی میں ہے، پھر مستقر یوم قیامت ہوگا۔ یعنی سورج کا یہ چلنا قیامت کے دن تک ہے، قیامت والے دن اس کی حرکت ختم ہو جائے گی۔ یہ تینوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔