وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
اور جب اللہ نے نبیوں سے میثاق (61) لیا کہ میں تمہیں جو کچھ کتاب و حکمت دوں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو تمہاری چیزوں کی تصدیق کرے، تو اس پر ضرور ایمان لے آؤ گے، اور اس کی ضرور مدد کروگے، اللہ نے کہا کہ کیا تم لوگوں نے اقرار کرلیا اور اس پر میرا عہد قبول کرلیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کرلیا۔ اللہ نے کہا، پس تم لوگ گواہ رہو، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں
1- یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اس کی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہوگا، جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لئے تو اس نئے نبی پر ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔ بعض مفسرین نے رَسُولٌ مُصَدِّقٌ سے الرَّسُولُ کا مفہوم مراد لیا ہے یعنی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ اگر ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کرکے ان پر ایمان لانا ہوگا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ پہلے معنی میں ہی یہ دوسرا مفہوم از خود آجاتا ہے۔ اس لئے الفاظ قرآن کے اعتبار سے پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے اور اس مفہوم کے لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ نبوت محمدی کے سراج منیر کے بعد کسی بھی نبی کا چراغ نہیں جل سکتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رضي الله عنه) تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی (ﷺ) یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے کہ اگر موسیٰ (عليه السلام) بھی زندہ ہو کر آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاؤ تو یقیناً گمراہ ہو جاؤ گے) (مسنداحمد، بحوالہ ابن کثیر) بہرحال اب قیامت تک واجب الاتباع صرف محمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں اور نجات انہی کی اطاعت میں منحصر ہے نہ کہ کسی امام کی اندھی تقلید یا کسی بزرگ کی بیعت میں۔ جب کسی پیغمبر کا سکہ اب نہیں چل سکتا تو کسی اور کی ذات غیر مشروط اطاعت کی مستحق کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اصر بمعنی عہد اور ذمہ ہے۔