وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
اور کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ (١٣) نہیں اٹھائے گی، اور اگر اپنے بوجھ تلے دبی ہوئی کوئی جان اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے کسی کو پکارے گی، تو اس بوجھ کا کوئی حصہ بھی (اس کی طرف سے) اٹھایا نہیں جائے گا، چاہے وہ کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کے ڈرانے سے صرف وہی لوگ مستفید ہوں گے جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو شخص اپنے آپ کو پاک بناتا ہے، تو اس کا فائدہ اسی کو ملتا ہے، اور اللہ کی طرف ہی سب کو لوٹ کر جانا ہے
1- ہاں جس نے دوسروں کو گمراہ کیا ہوگا، وہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ان کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائے گا، جیسا کہ آیت ﴿وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالا مَعَ أَثْقَالِهِمْ﴾ (العنكبوت: 13) اور حدیث [ مَنْ سَنَّ سُنّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ ] (صحيح مسلم ، كتاب الزكاة ، باب الحث على الصدقة) سے واضح ہے لیکن یہ دوسروں کا بوجھ بھی درحقیقت ان کا اپنا ہی بوجھ ہے کہ ان ہی نے ان دوسروں کو گمراہ کیا تھا۔ 2- مُثْقَلَةٌ أَيْ نَفْسٌ مُثْقَلَةٌ، ایسا شخص جو گناہوں کے بوجھ سے لدا ہوگا، وہ اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے اپنے رشتے دار کو بھی بلائے گا تو وہ آمادہ نہیں ہوگا۔ 3- یعنی تیرے انذاروتبلیغ کا فائدہ ان ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے، گویا تو ان ہی کو ڈراتا ہے، ان کو نہیں جن کوانذار سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا﴾ (النازعات: 45) اور ﴿إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ﴾ (يٰس: 11)۔ 4- تَطَهُّرٌ اور تَزَكِّي کے معنی ہیں شرک اور فواحش کی آلودگیوں سے پاک ہونا۔