وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَن يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ مُّفْتَرًى ۚ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب ان کے سامنے ہماری صریح آیتوں کی تلاوت (٣٤) کی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ یہ آدمی تمہیں صرف ان معبودوں کی پرستش سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آباؤ اجداد پرستش کیا کرتے تھے، اور یہ بھی کہتے تھے کہ یہ آیتیں اللہ پر افترا پردازی کے سوا کچھ نہیں ہیں، اور جن لوگوں نے ان کے پاس حق آجانے کے بعد اس کا انکار کردیا تھا، انہوں نے کہا کہ یہ کھلے جادو کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے
1- شخص سے مراد، حضرت نبی کریم (ﷺ) ہیں۔ باپ دادا کا دین، ان کے نزدیک صحیح تھا، اس لئے انہوں نے آپ (ﷺ) کا (جرم) یہ بیان کیا کہ یہ تمہیں ان معبودوں سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آبا عبادت کرتے رہے۔ 2- اس دوسرے هذَا سے مراد قرآن کریم ہے، اسے انہوں نے تراشا ہوا بہتان یا گھڑا ہوا جھوٹ قرار دیا۔ 3- قرآن کو پہلے گھڑا ہوا جھوٹ کہا اور یہاں کھلا جادو۔ پہلے کا تعلق قرآن کے مفہوم ومطالب سے ہے اور دوسرے کا تعلق قرآن کے معجزانہ نظم واسلوب اور اعجازوبلاغت سے۔ (فتح القدیر)۔