سورة سبأ - آیت 15

لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یقیناً سبا (12) والوں کے لئے ان کے مقام رہائش میں نشانی تھی، یعنی دائیں اور بائیں دو باغ تھے، (ہم نے ان سے کہا کہ) تم اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، پاکیزہ شہر ہے اور گناہوں کو معاف کرنے والا رب ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- سَبَأ وہی قوم تھی، جس کی ملکہ سبا مشہور ہے جو حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے زمانے میں مسلمان ہوگئی تھی۔ قوم ہی کے نام پر ملک کا نام بھی سبا تھا، آج کل یمن کے نام سے یہ علاقہ معروف ہے۔ یہ بڑا خوش حال ملک تھا، یہ ملک بری وبحری تجارت میں بھی ممتاز تھا اور زراعت وباغبانی میں بھی نمایاں۔ اور یہ دونوں ہی چیزیں کسی ملک اور قوم کی خوش حالی کا باعث ہوتی ہیں۔ اسی مال ودولت کی فراوانی کو یہاں قدرت الٰہی کی نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 2- کہتے ہیں کہ شہر کے دونوں طرف پہاڑ تھے، جن سے چشموں اور نالوں کا پانی بہہ بہہ کر شہر میں آتا تھا، ان کے حکمرانوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے تعمیر کرادیئے اور ان کے ساتھ باغات لگا دیئےگئے، جس سے پانی کا رخ بھی متعین ہوگیا اور باغوں کو بھی سیرابی کا ایک قدرتی ذریعہ میسر آگیا۔ ان ہی باغات کو، دائیں بائیں دو باغوں، سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں، جَنَّتَيْنِ سے دو باغ نہیں، بلکہ دائیں بائیں کی دو جہتیں مراد ہیں اور مطلب باغوں کی کثرت ہے کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھیں، باغات، ہریالی اور شادابی ہی نظر آتی تھی۔ (فتح القدیر)۔ 3- یہ ان کے پیغمبروں کے ذریعے سے کہلوایا گیا یا مطلب ان نعمتوں کا بیان ہے، جن سے ان کو نوازا گیا تھا۔ 4- یعنی منعم و محسن کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے اجتناب۔ 5- یعنی باغوں کی کثرت اور پھلوں کی فراوانی کی وجہ سے یہ شہر عمدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آب وہوا کی عمدگی کی وجہ سے یہ شہر مکھی، مچھر اور اس قسم کے دیگر موذی جانوروں سے بھی پاک تھا، واللہ اعلم۔ 6- یعنی اگر تم رب کا شکر کرتے رہو گے تو وہ تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ انسان توبہ کرتے رہیں تو پھر گناہ ہلاکت عام اور سلب انعام کا سبب نہیں بنتے، بلکہ اللہ تعالیٰ عفوودرگزر سے کام لیتا ہے۔