وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ
اور ہم نے سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر (9) کردیا تھا، وہ صبح کے وقت ایک ماہ کی مسافت، اور شام کے وقت ایک ماہ کی مسافت طے کرتی تھی، اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا، اور ہم نے بعض جنوں کو ان کے تابع کردیا تھا جو ان کے آگے ان کے رب کے حکم سے کام کرتے تھے، اور ان میں سے جو کوئی ہمارے حکم سے سرتابی کرتا تھا ہم اسے بھڑکتی آگ کا عذاب چکھاتے تھے
1- یعنی حضرت سلیمان (عليہ السلام) مع اعیان سلطنت اور لشکر، تخت پر بیٹھ جاتے، اور جدھر آپ کا حکم ہوتا ہوائیں اسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت، صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہوجاتی اور پھر اسی طرح دوپہر سے رات تک، ایک مہینے جتنی مسافت طے ہوجاتی۔ اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہوجاتی۔ 2- یعنی جس طرح حضرت داود (عليہ السلام) کے لئےلوہا نرم کردیا گیا تھا، حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے لئے تانبے کا چشمہ ہم نے جاری کردیا تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جو چاہیں، بنائیں۔ 3- اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سزا قیامت والے دن دی جائے گی۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ دنیوی سزا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر فرما دیا تھا جس کے ہاتھ میں آگ کا سونٹا ہوتا تھا۔ جو جن حضرت سلیمان (عليہ السلام) کے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ وہ سونٹا اسے مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہوجاتا۔ (فتح القدیر)۔