يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا
یہ لوگ یہی سمجھ (١٧) رہے ہیں کہ دشمن کی فوجیں اب تک واپس نہیں گئی ہیں، اور اگر وہ فوجیں دوبارہ مڑ کر آجائیں تو ان کی خواہش ہوگی کہ وہ بادیہ میں چلے جائیں اور وہاں سے تمہارے احوال معلوم کرتے رہیں اور اگر یہ لوگ تمہارے درمیان ہوتے تو برائے نام ہی جنگ میں شریک ہوتے
1- یعنی ان منافقین کی بزدلی، دوں ہمتی اور خوف ودہشت کا یہ حال ہے کہ کافروں کے گروہ اگرچہ ناکام ونامراد واپس جا چکے ہیں۔ لیکن یہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے مورچوں اور خیموں میں موجود ہیں۔ 2- یعنی بالفرض اگر کفار کی ٹولیاں دوبارہ لڑائی کی نیت سے واپس آجائیں تو منافقین کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مدینہ شہر کے اندر رہنے کے بجائے، باہر صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوں اور وہاں لوگوں سے تمہاری بابت پوچھتے رہیں کہ محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھی ہلاک ہوئے یا نہیں؟ یا لشکر کفار کامیاب رہا یا ناکام؟ 3- محض عار کے ڈر سے یاہم وطنی کی حمیت کی وجہ سے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو جہاد سے گریز کرتے یا اس سے پیچھے رہتے ہیں۔