سورة لقمان - آیت 33

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو (٢٥) اور اس دن سے ڈر کر رہو جب کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام نہیں آئے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آئے گا، بے شک اللہ کا وعدہ برحق ہے، پس تمہیں دنیا کی زندگی کہیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور کہیں شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں نہ ڈال دے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- جَازٍ اسم فاعل ہے جَزَى يَجْزِي سے، بدلہ دینا، مطلب یہ ہے کہ اگر باپ چاہے کہ بیٹے کو بچانے کے لئے اپنی جان کا بدلہ، یا بیٹا باپ کے لئے اپنی جان بطور معاوضہ پیش کر دے، تو وہاں یہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہر شخص کو اپنے کیے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ جب باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے تو دیگر رشتے داروں کی کیا حیثیت ہوگی؟ اور وہ کیوں کر ایک دوسرے کو نفع پہنچا سکیں گے؟