وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور اگر وہ دونوں تجھے اس پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک کسی ایسے کو بنائے جس کے معبود ہونے کا تجھے علم نہیں، تو ان کی بات نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی کرتا رہ اور اس شخص کی راہ اپنا جس نے اپنی توجہ میری طرف پھیر لی ہے، پھر تم سب کو میرے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہیں تہارے کئے کی خبر دوں گا
1- یعنی مومنین کی راہ۔ 2- یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں (اہل ایمان) کی پیروی اس لئے کرو کہ بالآخر تم سب کو میری ہی بارگاہ میں آنا ہے، اور میری ہی طرف سے ہر ایک کو اس کے (اچھے یا برے) عمل کی جزا ملنی ہے۔ اگر تم میرے راستے کی پیروی کرو گے اور مجھے یاد رکھتے ہوئے زندگی گزارو گے تو امید ہے کہ قیامت والے روز میری عدالت میں سرخ رو ہو گے بصورت دیگر میرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔ سلسلۂ کلام حضرت لقمان کی وصیتوں سے متعلق تھا۔ اب آگے پھر وہی وصیتیں بیان کی جا رہی ہیں جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ درمیان کی دو آیتوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جملہ معترضہ کے طور پر ماں باپ کے ساتھ احسان کی تاکید فرمائی، جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے۔ کہ لقمان نے وصیت اپنے بیٹے کو نہیں کی تھی کیونکہ اس میں ان کا اپنا ذاتی مفاد بھی تھا۔ دوسرا یہ واضح ہو جائے کہ اللہ کی توحید وعبادت کے بعد والدین کی خدمت واطاعت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کا حکم والدین بھی دیں، تو ان کی بات نہیں ماننی چاہئے۔