سورة آل عمران - آیت 55

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ ! میں تجھے پورا (47) لینے والا ہوں، اور تجھے اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں، اور کافروں (کی خباثت آلود فضا) سے تجھے پاک کرنے والا ہوں، اور تیری اتباع کرنے والوں کو قیامت تک کافروں کے اوپر کرنے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، تو تمہارے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کروں گا جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے رہے تھے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- المتوفی کا مصدر توفی اور مادہ وفی ہے جس کے اصل معنی پورا پورا لینے کے ہیں، انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اسی لئے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پرمعطل کر دیئے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں۔ ﴿إِنِّي مُتَوَفِّيكَ﴾ میں یہ اسی اپنے حقیقی اور اصلی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی میں اے عیسیٰ (عليه السلام) تجھے یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھالوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور بعض نے اس کے مجازی معنی کےشہرت استعمال کے مطابق موت ہی کے معنی کئے ہیں لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کہا ہے کہ الفاظ میں تقدیم وتاخیر ہے یعنی رافعک (میں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں) کے معنی مقدم ہیں اور مُتَوَفِّيكَ (فوت کرنے والا ہوں) کے معنی متاخر، یعنی میں تجھے آسمان پر اٹھالوں گا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر وابن کثیر) 2- اس سے مراد ان الزامات سے پاکیزگی ہے جن سے یہودی آپ کو متہم کرتے تھے، نبی (ﷺ) کے ذریعے سے آپ کی صفائی دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی۔ 3- اس سے مراد یا تو نصاریٰ کا وہ دنیاوی غلبہ ہے جو یہودیوں پر قیامت تک رہے گا، گو وہ اپنے غلط عقائد کی وجہ سے نجات اخروی سے محروم ہی رہیں گے۔ یا امت محمدیہ کے افراد کا غلبہ ہے جو درحقیقت حضرت عیسیٰ (عليه السلام) اور دیگر تمام انبیا کی تصدیق کرتے اور ان کے صحیح اور غیر محرف دین کی پیروی کرتے ہیں۔