فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ
پس جب وہ لوگ کشتی میں سوار (٤٠) ہوتے ہیں، تو اللہ کے لئے بندگی کو خلاص کر کے اسے پکارتے ہیں، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے، تو دوبارہ شرک کرنے لگتے ہیں
1- مشرکین کے اس تناقض کو بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس تناقض کو حضرت عکرمہ (رضی الله عنہ) سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوگئی۔ ان کے متعلق آیا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہوگئے تاکہ نبی (ﷺ) کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی، تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص سے رب سے دعائیں کرو، اس لئےکہ یہاں اس کےعلاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ حضرت عکرمہ (رضی الله عنہ) نے یہ سن کر کہا کہ اگر یہاں سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اور اسی وقت اللہ سے عہد کر لیا کہ اگر میں یہاں سے بخیرت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا یعنی مسلمان ہو جاؤں گا، چنانچہ یہاں سے نجات پاکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا (رضی الله عنہ)۔ (ابن کثیر بحوالہ سیرت محمد بن اسحاق)