وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
اور تم لوگ اہل کتاب سے بحث و مادلہ (٢٦) صرفا سی طریقہ سے کرو جو سب سے عمدہ ہو، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا اور کہو کہ ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو ہم پر نازل کی گئی ہے اور تم پر نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے اور ہم نے اسی کے سامنے اپنے سر جھکا رکھے ہیں۔
1- اس لئے کہ وہ اہل علم وفہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت واستعداد رکھتے ہیں۔ بنا بریں ان سے بحث وگفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔ 2- یعنی جو بحث ومجادلہ میں افراط سےکام لیں تو تمہیں بھی سخت لب ولہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لئے ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت ونصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظَلَمُوا مِنْهُمْ کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کےخلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال وقتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے۔ ان سے تم بھی قتال کرو تا آنکہ مسلمان ہو جائیں، یا جزیہ دیں۔ 3- یعنی تورات وانجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سےنازل کردہ ہیں اور یہ کہ یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الہیہٰ ہیں۔