سورة العنكبوت - آیت 40

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو ہم نے ان میں ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے پکڑ (٢٢) لیا، تو ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش کردی، اور بعض کو ایک زبردست چیخ نے آلیا اور بعض کو زمین میں دھنسا دیا اور بعض کو ہم نے ڈبودیا اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی ان مذکورین میں سے ہر ایک کی، ان کے گناہوں کی پاداش میں، ہم نے گرفت کی۔ 2- یہ قوم عاد تھی، جس پر نہایت تندوتیز ہوا کا عذاب آیا۔ یہ ہوا زمین سے کنکریاں اڑا اڑا کر ان پر برساتی ، بالآخر اس کی شدت اتنی بڑھی کہ انہیں اچک کر آسمان تک لے جاتی اور انہیں سر کے بل زمین پر دے مارتی، جس سے ان کا سر الگ اور دھڑ الگ ہو جاتا گویا کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (ابن کثیر) بعض مفسرین نے حاصبا کا مصداق قوم لوط (عليہ السلام) کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن امام ابن کثیر نے اسے غیر صحیح اور حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) کی طرف منسوب قول کو منقطع قرار دیا ہے۔ 3- یہ حضرت صالح (عليہ السلام) کی قوم، ثمود ہے۔ جنہیں ان کے کہنے پر ایک چٹان سے اونٹنی نکال کر دکھائی گئی۔ لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی کو ہی مار ڈالا۔ جس کے تین دن بعد ان پر سخت چنگھاڑ کا عذاب آیا، جس نے ان کی آوازوں اور حرکتوں کو خاموش کر دیا۔ 4- یہ قارون ہے، جسے مال و دولت کے خزانے عطا کیے گئے تھے، لیکن یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا کہ یہ مال ودولت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے ہاں معزز و محترم ہوں۔ مجھے موسیٰ (عليہ السلام) کی بات ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ اسے اس کے خزانوں اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ 5- یہ فرعون ہے، جو ملک مصر کا حکمران تھا، لیکن حد سے تجاوز کرکے اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعویٰ بھی کر دیا۔ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) پر ایمان لانے سے اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو، جس کو اس نے غلام بنا رکھا تھا، آزاد کرنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر ایک صبح اس کو اس کے پورے لشکر سمیت دریائے قلزم میں غرق کر دیا گیا۔ 6- یعنی اللہ کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اس لیے پچھلی قومیں، جن پر عذاب آیا، محض اس لیے ہلاک ہوئیں کہ کفر وشرک اور تکذیب ومعاصی کا ارتکاب کرکے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔