ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
یہ غیب کی خبریں (38) ہیں، جو ہم آپ کو بذریعہ وحی بتا رہے ہیں، اور آپ ان کے پاس اس وقت نہیں تھے، جب وہ اپنے قلم (بطور قرعہ نہر اردن میں) ڈال رہے تھے، کہ مریم کی کفالت کون کرے، اور جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے تو آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے
1- آج کل کے اہل بدعت نے نبی کریم (ﷺ) کی شان میں غلو عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ان کے اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اس آیت سے ان دونوں عقیدوں کی واضح تردید ہوتی ہے۔ اگر آپ نبی (ﷺ) عالم الغیب ہوتے، تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم غیب کی خبریں آپ کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کو پہلے ہی علم ہو، اس کو اس طرح نہیں کہا جاتا اور اسی طرح حاضر وناظر کو یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لئے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے اور بھی کئی خواہش مند تھے۔ ﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ﴾ سے نبی کریم (ﷺ) کی رسالت اور آپ کی صداقت کا اثبات بھی ہے جس میں یہودی اور عیسائی شک کرتے تھے کیونکہ وحی شریعت پیغمبر پر ہی آتی ہے،غیر پیغمبر پر نہیں۔