وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ
اور جو لوگ علم والے تھے انہوں نے کہا تمہارے حال پر افسوس ہے اللہ کا ثواب زیادہ بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور عمل صالح کرے اور یہ چیز صرف صبر کرنے والے کوہی حاصل ہوتی ہے
1- یعنی جن کے پاس دین کا علم تھااور دنیا اور اس کے مظاہر کی اصل حقیقت سے باخبر تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے اہل ایمان اور اعمال صالح بجا لانے والوں کے لیے جو اجر وثواب رکھا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی کے وہم وگمان میں ان کا گزر ہوا“۔ (البخاری، كتاب التوحيد، باب قول الله تعالى ﴿يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ﴾، ومسلم، كتاب الإيمان، باب أدنى أهل الجنة منزلة) 2- یعنی يُلَقَّاهَا میں ”ھا“ کا مرجع، کلمہ ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اور اگر اسے اہل علم ہی کے قول کا تتمہ قرار دیا جائے تو ھا کا مرجع جنت ہوگی یعنی جنت کے مستحق وہ صابر ہی ہوں گے جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آخرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں گے۔