وَلَٰكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ
بلکہ اس واقعہ کے بعد کتنی قومیں گذر گئیں اور ان پر صدیاں بیت گئیں اور نہ آپ اہل مدین کے درمیان پائے گئے انہیں ہماری آیتیں سنانے کے لیے لیکن ہم نے آپ کو اپنا رسول بنا کربھیجا
1- قُرُونٌ، قَرْنٌ کی جمع ہے، زمانہ۔ لیکن یہاں امتوں کے معنی میں ہے یعنی اے محمد! (ﷺ) آپ کے اور موسی، (عليہ السلام) کے درمیان جو زمانہ ہے اس میں ہم نے کئی امتیں پیدا کیں۔ 2- یعنی مرور ایام سے شرائع واحکام بھی متغیر ہوگئے اور لوگ بھی دین کو بھول گئے، جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے حکموں کو پس پشت ڈال دیا اور اس کے عہد کو فراموش کر دیا اور یوں اس کی ضرورت پیدا ہوگئی کہ ایک نئے نبی کو مبعوث کیا جائے یا یہ مطلب ہے کہ طول زمان کی وجہ سے عرب کے لوگ نبوت ورسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے، اس لیے آپ کی نبوت پر انہیں تعجب ہورہا ہے اور اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 3- جس سے آپ خود اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہو جاتے۔ 4- اور اسی اصول سے ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور پچھلے حالات وواقعات سے آپ کو باخبر کر رہے ہیں۔