قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ ۖ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
باپ نے کہا، میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بچیوں میں سے ایک سے تمہاری شادی کردوں، اس شرط پر کہ تم آٹھ سال تک میرے پاس ملازمت کرو گے اور اگر دس سال پورے کرو گے تو تمہاری جانب سے میرے ساتھ بھلائی ہوگی اور میں تم پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا ہوں تم مجھے انشاء اللہ اچھے لوگوں میں سے پاؤ گے
1- ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن شریعت الٰہیہ میں یہ مذموم نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اس سے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لیے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے، بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے۔ عہد رسالت مآب (ﷺ) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔ 2- اس سے علما نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے۔ 3- یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایذا محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہوگی۔ 4- نہ جھگڑا کروں گا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لوں گا۔