وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ
اور اسے ایمان لانے سے اب تک اس بات نے روک رکھا تھا کہ وہ اللہ کے سوا غیروں کی عبادت کرتی تھی، وہ بیشک کافروں میں سے تھی۔
1- یعنی یہاں آنے سےقبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہوگئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر وشوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان (عليہ السلام) کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکۂ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہوگی۔ 2- یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور صَدَّهَا کا فاعل مَا كَانَتْ تَعْبُدُ ہے یعنی اسے اللہ کی عبادت سے جس چیز نے روک رکھا تھا، وہ غیراللہ کی عبادت تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا، اس لیے توحید کی حقیقت سے بے خبر رہی بعض نے صَدَّهَا کا فاعل اللہ کو اور بعض نے سلیمان (عليہ السلام) کو قرار دیا ہے۔ یعنی اللہ نے یا اللہ کے حکم سے سلیمان (عليہ السلام) نے اسے غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ (فتح القدیر)۔