كَذَٰلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا بَنِي إِسْرَائِيلَ
ہم نے ان کے ساتھ ایسا کیا اور ان تمام چیزوں کا مالک بنی اسرائیل کو بنا دیا۔
1- یعنی جو اقتدار اوربادشاہت فرعون کو حاصل تھی، وہ اس سے چھین کر ہم نےبنی اسرائیل کو عطا کردی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مصر جیسا اقتدار اور دنیوی جاہ و جلال ہم نے بنی اسرائیل کو بھی عطاکیا۔ کیوں کہ بنی اسرائیل، مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے۔ نیز سورۂ دخان میں فرمایا گیا ہے ﴿وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ﴾ کہ ”ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا“ (ایسر التفاسیر) اول الذکر اہل علم کہتے ہیں کہ قوما آخرين میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں سورۂ شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانےکی صراحت آگئی ہے، تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہوگی۔ مگر خود قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونےکا حکم دیا گیا۔ اور ان کےانکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ موخر کرکے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا۔ پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چنانچہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی قبر، حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے۔ اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں، ویسی ہی نعمتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں۔ لیکن مصر میں نہیں بلکہ فلسطین میں، وَاللهُ أَعْلَمُ۔