سورة الفرقان - آیت 45
أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا
ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب
کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا (٢١) نہیں کہ وہ کس طرح سائے کو پھیلاتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن بنا دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس (سائے) کی پہچان بنا دی ہے۔
تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
1- یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج کے طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹنا اور سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ 2- یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا ،سورج کی دھوپ سائے کوختم ہی نہ کرتی۔ 3- یعنی دھوپ سے ہی سائے کا پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔