وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
اور اہل کفر کہتے ہیں کہ اس پر پورا قرآن ایک ہی بار (١٤) کیوں نہیں اتار دیا گیا اس طرح بتدریج اس لیے اتارا گیا تاکہ ہم اس کے ذریعہ آپ کے دل کو تقویت پہنچائیں اور اسے ہم نے آپ کو تھوڑا تھوڑا پڑھ کر سنایا ہے۔
1- جس طرح تورات، انجیل اور زبور وغیرہ کتابیں بیک مرتبہ نازل ہوئیں۔ 2- اللہ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات و ضروریات کے مطابق اس قرآن کو 23 سال میں تھوڑ تھوڑا کرکے اتارا تاکہ اے پیغمبر ! تیرا اور اہل ایمان کاﺩل مضبوط ہو اور ان کے خوب ذہن نشین ہوجائے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَـزَّلْنَاهُ تَنْـزِيلا﴾ (سورة بنی إسرائيل: 106) ”اور قرآن، اس کو ہم نےجدا جدا کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا“ اس قرآن کی مثال بارش کی طرح ہے۔ بارش جب بھی نازل ہوتی ہے،مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتاً فوقتاً نازل ہو، نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔