فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
وہ چراغ ایسے گھروں (٢٤) میں ہے جن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ ان کی قدرو منزلت کی جائے اور ان میں صرف اسی کا نام لیا جائے، ان گھروں (یعنی مسجدوں) میں صبح و شام اس کی تسبیح ایسے لوگ پڑھتے رہتے ہیں۔
1- جب اللہ تعالیٰ نے قلب مومن کو اور اس میں جو ایمان وہدایت اور علم ہے، اس کو ایسے چراغ سے تشبیہ دی جو شیشے کی قندیل میں ہو اور جو صاف شفاف تیل سے روشن ہو۔ تو اب اس کا محل بیان کیا جارہا ہے کہ یہ قندیل ایسے گھروں میں ہیں، جن کی بابت حکم دیا گیا ہے کہ انہیں بلندکیا جائے اور ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے۔ مراد مسجدیں ہیں، جو اللہ کو زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ بلندی سے مراد محض سنگ وخشت کی بلندی نہیں ہے بلکہ اس میں مسجدوں کو گندگی، لغویات اور غیرمناسب اقوال و افعال سے پاک رکھنا بھی شامل ہے۔ ورنہ محض مسجدوں کی عمارتوں کو عالی شان اور فلک بوس بنا دینا، مطلوب نہیں ہے بلکہ احادیث میں مسجدوں کو زرنگار اور زیادہ آراستہ وپیراستہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور ایک حدیث میں تو اسے قرب قیامت کی علامات میں سے بتلایا گیا ہے۔ (أبو داود، كتاب الصلاة باب في بناء المساجد) علاوہ ازیں، جس طرح مسجدوں میں تجارت وکاروبار اور شور وشغب ممنوع ہیں کیونکہ یہ مسجد کے اصل مقصد، عبادت کے منفی ہیں۔ اسی طرح اللہ کا ذکر کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ صرف ایک اللہ کا ذکر کیا جائے، اسی کی عبادت کی جائے اور صرف اسی کو مدد کے لئے پکارا جائے۔ ﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا﴾ (سورة جن: 18) ”مسجدیں، اللہ کے لئے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو“۔ 2- تسبیح سے مراد نماز ہے۔ آصَالٌ، أَصِيلٌ کی جمع ہے بمعنی شام۔ یعنی اہل ایمان، جن کے دل ایمان و ہدایت کے نور سے روشن ہوتے ہیں، صبح وشام مسجدوں میں اللہ کی رضا کے لئے نماز پڑھتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔