وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
اور جب تم لوگوں نے یہ جھوٹی خبر سنی تو کیوں نہیں کہا، ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ ایسی بات کریں اے ہمارے رب ! تو تمام عیوب سے پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتا ہے۔
1- دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بتلائی کہ اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ بھی پیش نہیں کیا۔ جب کہ اس کے لئے چار گواہ ضروری تھے، اس کے باوجود تم نے ان بہتان تراشوں کو جھوٹا نہیں کہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حضرت حسان، مسطح اور حمنہ بنت حجش (رضی الله عنہم) کو حد قذف لگائی گئی۔ (مسند أحمد جلد۔ 6 ، ص 30، ترمذی نمبر 3181 ،ابوداود نمبر 4744 ابن ماجہ، نمبر 2567 ) عبداللہ بن ابی کو سزا اس لئے نہیں دی گئی کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کو ہی کافی سمجھ لیا گیا اور مومنوں کو سزا دے کر دنیا میں ہی پاک کردیا گیا۔ دوسرے، اس کے پیچھے ایک پورا جتھہ تھا، اس کو سزا دینے کی صورت میں کچھ ایسے خطرات تھے کہ جن سے نمٹنا اس وقت مسلمانوں کے لئے مشکل تھا، اس لئے مصلحتاً اسے سزا دینے سے گریز کیا گیا۔ (فتح القدیر)۔ تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فضل واحسان تم پر نہ ہوتا تو تمہارا یہ رویہ کہ تم نے بلا تحقیق اس افواہ کو آگے پھیلانا شروع کردیا۔ عذاب عظیم کا باعث تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افواہ سازی اور اس کی نشرواشاعت بھی جرم عظیم ہے۔ جس پر انسان عذاب عظیم کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔ چوتھی بات، کہ یہ معاملہ براہ راست حرم رسول (ﷺ) اور ان کی عزت وآبرو کا تھا لیکن تم نے اسے قرار واقعی اہمیت نہیں دی، اور اسے ہلکا سمجھا۔ اس سے بھی یہ سمجھانا مقصود ہے کہ محض آبروریزی ہی بڑا جرم نہیں ہے کہ جس کی حد سو کوڑے یا رجم ہے بلکہ کسی کی عزت وآبرو پر اس طرح حملہ کرنا اور کسی عفت مآب خاندان کی تذلیل واہانت کا سروسامان کرنا بھی اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے، اسے ہلکا مت سمجھو۔ اسی لئے آگے پھر مزید تاکید کرتے ہوئے کہا کہ تم نے سنتے ہی یہ کیوں نہیں کہا کہ ہمیں ایسی بات منہ سےنکالنی بھی لائق نہیں۔ یہ یقیناً بہتان عظیم ہے۔ اسی لئے امام مالک فرماتے ہیں کہ جو نام نہاد مسلمان حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) پر بےحیائی کا الزام عائد کرے وہ کافر ہے کیوں کہ وہ اللہ کی اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے۔ (ایسرالتفاسیر)۔