وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ
اور ہم نے انہیں عذاب میں گرفتار کیا، لیکن وہ اپنے رب کے سامنے نہیں جھکے اور نہ وہ گریہ و وزاری کرتے ہیں۔
1- عذاب سے مراد یہاں وہ شکست ہے جو جنگ بدر میں کفار مکہ کو ہوئی، جس میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے یا وہ قحط سالی کا عذاب ہے جو نبی (ﷺ) کی بد دعا کے نتیجے میں ان پر آیا تھا۔ آپ (ﷺ) نے دعا فرمائی تھی [ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ ]، (البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء علی المشرکین، ومسلم، کتاب المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلاة اذا نزلت بالمسلمین نازلة) ”اے اللہ، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں سات سال قحط رہا، اسی طرح قحط سالی میں انہیں مبتلا کر کے ان کے مقابلے میں میری مدد فرما“ چنانچہ کفار مکہ اس قحط سالی میں مبتلا ہوگئے جس پر حضرت سفیان نبی (ﷺ) کے پاس آئے اور انہیں اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ اب تو ہم جانوروں کی کھالیں اور خون تک کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس پر آیت نازل ہوئی (ابن کثیر)