سورة المؤمنون - آیت 27

فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس ہم نے انہیں وحی کے ذریعہ کہا کہ آپ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بنایئے پس جب ہمارا حکم آجائے اور تنور سے پانی ابل پڑے تو آپ اس کشتی میں ہر جانور کا ایک (نر و مادہ) جوڑا اور اپنے گھر والوں کو سوار کرلیجیے ان میں سے سوائے ان کے جن کے بارے میں پہلے ہی فیصلہ ہوچکا ہے اور آپ مجھ سے ظالموں کے حق میں کوئی سفارش نہ کیجیے، وہ یقینا ڈبو دیئے جائیں گے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی ان کی ہلاکت کا حکم آ جائے۔ 2- تنور پر حاشیہ سورہ ہود میں گزر چکا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہمارے ہاں کا معروف تنور نہیں، جس میں روٹی پکائی جاتی ہے، بلکہ روئے زمین مراد ہے کہ ساری زمین ہی چشمے میں تبدیل ہوگئی۔ نیچے زمین سے پانی چشموں کی طرح ابل پڑا۔ نوح (عليہ السلام) کو ہدایت جاری ہے کہ جب پانی زمین سے ابل پڑے۔ 3- یعنی حیوانات، نباتات اور ثمرات ہر ایک میں سے ایک ایک جوڑا (نر مادہ) کشتی میں رکھ لے تاکہ سب کی نسل باقی رہے۔ 4- یعنی جن کی ہلاکت کا فیصلہ، ان کے کفر و طغیان کی وجہ سے ہو چکا ہے، جیسے زوجہ نوح (عليہ السلام) اور انکا پسر۔ 5- یعنی جب عذاب کا آغاز ہو جائے تو ان ظالموں میں سے کسی پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تو کسی کی سفارش کرنی شروع کر دے۔ کیونکہ ان کے غرق کرنے کا قطعی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔