وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ
اور اہل کفر ہمیشہ قرآن کی جانب سے شک میں پڑے رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت انہیں اچانک آلے گی، یا کسی منحوس دن کا عذاب ان پر نازل ہوجائے گا۔
1- یَوْمِ عَقِیْمِ (بانجھ دن) سے مراد قیامت کا دن ہے۔ اسے عقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے بعد کوئی دن نہیں ہوگا، جس طرح عقیم اس کو کہا جاتا ہے جس کی اولاد نہ ہو۔ یا اس لئے کہ کافروں کے لئے اس دن کوئی رحمت نہیں ہوگی، گویا ان کے لئے خیر سے خالی ہوگا۔ جس طرح باد تند کو، جو بطور عذاب کے آتی رہی ہے الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ کہا گیا ہے۔ ﴿اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ﴾ (الذاریات:41) ”جب ہم نے ان پر بانجھ ہوا بھیجی“۔ یعنی ایسی ہوا جس میں کوئی خیر تھی نہ بارش کی نوید۔